اسرائیل کی طرف سے فلسطینی مسلمانوں کا وحشیانہ قتل عام جاری ہے۔ اسرائیل کے اتحادی بھارت میں کنگنا رناوت جیسی مسلم دشمن فلمی اداکاراؤں سے لیکر مودی سرکار تک اسرائیل کے سفاک مظالم کی کھل کر حمایت کر رہی ہے۔ دوبئی کی سڑکوں پر اسرائیلی مہمانوں کیلئے دیو قامت “ویلکم ڈیجیٹل بورڈ” آویزاں کیے جا رہے ہیں
امریکہ اور اسرائیل کے حلیف متحدہ عرب امارات جیسے مسلمان ممالک کی طرف سے عالم اسلام کے قاتل اسرائیل اور بھارت کی افسوس ناک پذیرائیاں کوئی نئی بات نہیں ۔ امریکی فوجوں کے افغانستان سے انخلاء کے وقت اسرائیل کی یہ تازہ ترین جارحیت اسرائیل امریکہ اور بھارت کے دفاعی اتحاد کی پہلے سے طے شدہ منصوبہ بندی لگتی ہے۔ جس کا مقصد خلیج سے جنوبی ایشیا تک بدامنی پھیلا کر چین پاکستان اور ایران کے گرد گھیرا تنگ کرنا ہے۔
میں نے اپنے گذشتہ کالم میں لکھا تھا کہ افغانستان سے انخلاء کے ساتھ ہی امریکہ پاکستان سے فوجی اڈوں کی فراہمی کیلئے دباؤ ڈالے گا۔ اور انکار کی صورت میں وار اگینسٹ ٹیرر جیسی ” اڈے دو ورنہ جنگ کیلئے تیار ہو جاؤ” جیسی بلیک میلنگ صورت حال پیدا کی جائے گی، افغان صورت حال کے حوالے سے اہم ہے کہ افغان طالبان نے امریکی فوجوں کے انخلاء تک افغانستان میں امن کیلئے کسی مذاکرات سے انکار کر دیا ہے۔ جو اس امر کی واضع نشاندھی ہے کہ افغان طالبان امریکہ یا اس کے کسی حلیف پر کسی صورت اعتبار اور اعتماد نہیں رکھتے۔
عالمی پریس کے مطابق پاکستان نے ابتدائی طور پر امریکہ کو فوجی اڈے فراہم کرنے سے معذرت کر لی ہے۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے مطابق پاکستان بہر صورت افغانستان میں دہشت گردی کیخلاف تعاون کرے گا۔ لیکن کسی بھی صورت میں امریکہ کو فوجی اڈے دے کر براہ راست کسی جنگ میں شامل نہیں ہو گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان اپنے اس انکار پر قائم رہنے کی طاقت رکھتا ہے ؟ کیا پاکستانی سیاسی اور عسکری قیادت امریکہ کے سامنے سینہ تان کر آخری وقت تک انکار کر سکتی ہے۔ یا بصورت دیگر پاکستان کو وار اگینسٹ ٹیرر جیسے ایک اور کڑے امتحان کا سامنا ہو گا
میرے مطابق پاکستان کی طرف سے امریکہ کو فضائی اڈے دینے کے اہم معاملات پر ” کچھ دو اور کچھ لو” جیسے امکانات کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔ امریکہ اگر اس کے بدلے پاکستان کو ففتھ جنریشن سٹیلتھ فائٹر ایف ۔ 35 ، ایف ۔ 22 ریپٹر یا ایف ۔ 15 ای جیسے جدید طیارے اور دیگر جدید ہتھیار فراہم کرتا ہے۔ اور پاکسان کو اس کے پرانے ورژن ایف ۔ 16 طیاروں کی اپ گریڈنگ کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ تو اس صورت میں پاکستان کی فوجی قیادت کیلئے فوجی اڈوں کی فراہمی کی ڈیل کے مشروط قابل قبول ہونے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
پاکستان کی طرف سے امریکہ کیلئے اڈوں کی فراہمی کا فیصلہ کرتے ہوئے بحرحال اپنے دفاعی اتحادی چین کے دفاعی مفادات اور مشترکہ دفاعی منصوبہ بندی کے حساس معاملات کو بھی مدنظر رکھنا ہو گا۔
خیال رہے نہ صرف روس اور چین بلکہ ترکی اور ایران بھی پاکستان میں امریکی اڈوں کے زبردست مخالف ہیں۔ خیال رہے کہ گذشتہ کئی دہائیوں سے افغانستان کا کردار امریکہ اور بھارت کے آلہ کار سے زیادہ کچھ نہیں رہا ۔ البتہ ماضی میں بھارت کے ساتھ اشتراک سے انٹی پاکستان سرگرمیوں میں ملوث ہونے والے ہمسایہ ملک ایران کی طرف سے مستقبل میں پاکستان کے مفادات کا خیال اور باہمی تعلقات میں نیک نیتی بڑی اہم ہو گی۔
ورلڈ پریس کے مطابق ازبکستان نے امریکہ کو فوجی اڈوں دینے کے امکان کو مسترد کر دیا ہے۔ تاشقند میں وزارت دفاع کے ترجمان نے اس انکار اور امریکی منصوبوں کے بارے سوالات کے جواب میں کہا کہ ، امریکہ اور ازبکستان کے مابین دفاعی معاہدوں کی دستاویز میں اس انکار کے بارے سوالوں کے واضح جوابات موجود ہیں۔
یاد رہے کہ گذشتہ ہفتے مشہور اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے امریکی فوجی جرنیلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ اب بھی افغانستان چھوڑنے والے فوجیوں اور جنگی سازو سامان کی ازبکستان یا تاجکستان میں دوبارہ تعیناتی کو ترجیح دے گا۔ یہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ امریکہ افغانستان کے انخلاء کے باوجود چین اور پاکستان پر کڑی نظر رکھنے اور اسرائیلی حلیف بھارت کے مفادات کی رکھوالی کیلئے خطے کو چھوڑنے کیلئے ہرگز تیار نہیں ہو گا۔
پاکستان اور ازبکستان کی طرف سے انکار کے بعد قوی امکان ہے کہ امریکہ اپنے اتحادی متحدہ عرب امارات کے فضائی اڈے استعمال کرتے ہوئے پاکستانی فضائی حدود استعمال کرنے کی ڈیمانڈ کرے گا۔
عالمی مبصرین کے مطابق ابھی صرف پاکستان اور ازبکستان کی طرف سے ابتدائی انکار ہوا ہے۔ امریکہ کے پاس ابھی تاجکستان ، کرغزستان ، ترکمنستان اور قازقستان کی آپشنز باقی ہیں ۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ اسرائیل کے سرپرست امریکہ کو فضائی اور فوجی اڈوں کیلئے ان ممالک میں چند میزبان مل ہی جائیں گے۔
فاروق رشید بٹ
( فاروق درویش)
امریکہ اسرائیل بھارت گٹھ جوڑ کے بارے میرا یہ کالم بھی پڑھیں
امریکہ اسرائیل اور بھارت کا اتحاد اور تیسری جنگ عظیم کی صف بندیاں – پارٹ ون