پہلی دونوں عالمی جنگوں کے شعلے بھڑکانے میں یہودیوں کا کردار ان کی صدیوں سے جاری عالمی فتنہ گری کا مظہر تھا۔ آج بھی بیروت سے ایران اور برصغیر سے بحیرہ چین تک کشیدہ حالات بتا رہے ہیں کہ یہودی لابیاں اپنے مذموم مقاصد کے حصول کیلئے دنیا کو تیسری عالمی جنگ میں جھونکنے کیلئے مشرق و مغرب میں سرگرم ہیں ۔ اسرائیلی لابی کے زیر اثر امریکہ اپنے نئے بغل بچے بھارت کو کندھوں پر اٹھا کر دنیا بھر کا امن تباہ کرنے کی مہم جوئی میں ہے۔
۔
چین کی بڑھتی ہوئی فوجی طاقت اور عالمی اثر و رسوخ سے خائف ممالک امریکہ کی چھتری تلے جمع ہورہے ہیں۔ کل تک روس کا حلیف بن کر امریکی مخالفت میں سرگرم بھارت ، ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریک کے وحشیانہ ایٹمی حملوں کا نشانہ بننے والا جاپان اور برطانیہ سے جلاوطن کئے گئے جارحیت پسند لوگوں کی سرزمین آسٹریلیا نے امریکہ کا اتحادی بن کر چین کے گرد گھیرا تنگ کرنے اور اپنی جنگی طاقت کے مظاہرہ کیلئے خلیج بنگال میں مالابار مشترکہ فوجی مشقوں کیلئے جمع ہیں۔
ان نئے اتحادی ممالک کے مطابق ان بحری مشقوں کا مقصد خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور جارحانہ فوجی طاقت کا مقابلہ کرنا ہے۔ امریکہ کی سربراہی میں بننے والا یہ نیا اتحاد اس لحاظ سے تعجب خیز ہے کہ ان میں دو ممالک جاپان اور بھارت ماضی میں امریکہ ہی کے شدید زخم خوردہ ہیں
دوسری جنگ عظیم میں امریکہ کے ہاتھوں تباہ و برباد ہونے والا جرمنی بھی اس نئے اتحاد میں شمولیت کا خواہشمند ہے۔ چینی میڈیا کا کہنا ہے کہ ، جب کسی خطے میں بہت ساری بیرونی طاقتیں جمع ہوں تو خطے کوجغرافیائی اور سیاسی دشمنی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کی وجہ سے دنیا کوغیر یقینی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔
[the_ad id=”2155″]
چینی فوجی طاقت کیخلاف جنگی طاقت کے مظاہرے کیلئے 17 سے 20 نومبر تک جاری رہنے والی ان بحری مشقوں کے دوران امریکی طیارہ بردار جہاز نمٹر اور ہندوستانی طیارہ بردار وکرمادتیہ بھی ان مشترکہ جنگی مشقوں میں شرکت کر رہے ہیں۔ چین اور خاص طور پر روسی ڈیفنس تھنک ٹینک اس غیر اہم سرگرمی پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں کہ مالابار کی ان بحری مشقوں میں امریکی ایف ۔ 18 سپر ہارنیٹ اور ہندوستانی بحریہ کے روسی ساختہ مگ 29 لڑاکا طیارے حلیف ہوں گے ۔
دوسری طرف صدر ٹرمپ کی شکست بعد ایران نیے امریکی صدر جو بائیڈن سے نرم رویوں کی امید رکھتا ہے۔ ایران کے مطابق سابق صدر ٹرمپ طویل عرصہ ایران کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ رہے ۔ امریکہ کی ایران سے ایٹمی معاہدے سے دستبرداری کے بعد ایران بار بار امریکی پابندیوں کی زد میں رہا ہے۔
اس صورت حال میں جہاں روس کی یہ خواہش ہے کہ چاہبہار اور دیگر بھارتی مفادات کا حلیف ایران مستقبل میں سعودی عرب اور ترکی کے ساتھ مثبت تعلقات استوار کرے ۔ وہاں گذشتہ بیس سالوں سے شام اورعراق سے یمن تک جنگی مہم جوئیاں اور مسلکی شدت پسندی پر مبنی ایرانی پالیسیاں خطے میں امن کے خواہاں طبقوں کیلئے بے یقینی اور پریشانی کا باعث ہے۔
اس حوالے سے ذیل کے لنک پر یہ خبر بھی پڑھیں