امریکی اور نیٹو فوجوں کا افغانستان سے نکلنے کا مرحلہ شروع ہونے والا ہے۔ نیٹو اپ ڈیٹس کے مطابق یکم مئی سے شروع ہونے والا انخلاء اگلے چند ماہ میں مکمل ہونے کا منصوبہ ہے۔ جبکہ صدر جوبائیڈن کے مطابق امریکی فوج کا انخلاء بھی 11 ستمبر تک مکمل ہونے کا امکان ہے۔
اس صورت حال میں مغرب اور سامراج کا نیا بغل بچہ بھارت اور افغان حکومت انٹی پاکستان عناصر کے ساتھ مل کر پاکستانی مفادات کو نقصان پہنچانے کی سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہیں ۔ کوئٹہ کے سیرینا ہوٹل اٹیک میں خود کش حملہ آور کا افغان شہری ہونا اس امر کا ثبوت ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کی سرپرست بھارتی ایجنسیاں اور دہشت گردی کی سہولت کار افغان حکومت کا گٹھ جوڑ پاکستان میں بدامنی کیلئے سرگرم ہے۔
سی ٹی ڈی کی کے مطابق دو دہشت گرد افغان سرحد عبور کر کے پاکستان میں داخل ہوئے تھے۔ جن میں سے ایک شخص نے ہوٹل پر خود کش حملہ کیا۔ جبکہ دوسرا شخص ابھی تک کوئٹہ میں کہیں روپوش ہے۔ اس دوسرے دہشت گرد کی گرفتاری کیلئے پاکستانی سیکورٹی فورسز کا سپیشل سرچ اپریشن جاری ہے
پاکستانی سیکورٹی حکام گذشتہ روز ایک سیکیورٹی الرٹ بھی جاری کیا ہے ۔ جس میں کہا گیا تھا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان تاوان کے بدلے پاکستان کی اہم شخصیات اور تاجر برادری کے بڑے لوگوں کو اغوا کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔
پاکستانی اداروں کی طرف سے ایک آفیشل پیغام میں بتایا گیا ہے کہ دہشت گردوں نے چھ افراد پر مشتمل ایک ایسا گروہ تشکیل دیا ہے۔ جو اغوا برائے تاوان کیلئے کاروائیاں کرے گا ۔ اس گروپ کے لیڈر کا نام مکمل آفریدی ہے، جبکہ گروہ میں دو آفریدی ، دو سواتی اور دو مہمند دہشت گرد شامل ہیں۔
حکام کے مطابق اغوا برائے تاوان اور دہشت گردی کے منصوبے کو ناکام بنانے کیلئے تمام ڈویژنل افسران کو احکامات جاری کردیئے گئے ہیں۔ جبکہ پورے بلوچستان میں سکیورٹی اہلکاروں کو ہائی الرٹ کردیا گیا ہے۔
دوسری طرف افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان پر افغان طالبان کی حمایت کا الزام لگاتے ہوئے پاکستان سے طالبان کو کنٹرول کرنے کا کہا ہے۔ اشرف غنی کے مطابق امریکہ اور نیٹو نے افغان حکومت کی مکمل حمایت کا وعدہ کیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اور نیٹو افغانستان سے انخلا کے بعد بھی اپنی کٹھ پتلی افغان حکومت کے ذریعے پاکستانی مفادات کو نقصان پہنچانے کی ڈرٹی گیم جاری رکھیں گے۔ لیکن افغان طالبان سے خوف زدہ افغان حکومت کے بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھارتی مفادات کی رکھوالی افغان حکومت کو افغان طالبان کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا رہے گا۔
افغانستان میں نیٹو کے ترجمان اسٹیفانو پونٹیکا شاڈو نے افغان حکومت کی حمایت کے ساتھ ساتھ سرکاری فوجوں اور طالبان کے مابین دشمنی کے سیاسی حل پر زور دیا ہے۔ انہوں نے قومی مفاہمت کیلئے افغانستان کی اعلی کونسل کے سربراہ اور افغانستان میں بھارتی مفادات کے دیرینہ حامی عبداللہ عبداللہ سے بھی ملاقات کی۔
گذشتہ ستمبر میں دوحہ میں افغان طالبان اور کابل حکومت کے مابین امن مذاکرات کے باوجود خونی جھڑپوں کا سلسلہ جاری تھا ۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغان طالبان ، امریکہ ، نیٹو اور ان کے نئے حلیف بھارت کے ہاتھوں میں کھیلنے والے اشرف غنی کی ڈبل گیم پالیسی پر اعتماد نہیں کرتے۔
امریکی سنٹرل کمانڈ کے سربراہ ، جنرل کینتھ میک کینزی نے کہا کہ امریکہ آئندہ افغانستان میں انسداد دہشت گردی کیلئے افغان حکومت کی حمایت کیلئے ممکنہ اختیارات تلاش کرے گا۔ میک کینزی نے کہا کہ روسی آزاد ریاستوں کے ساتھ امریکہ کا ابھی کوئی اہم معاہدہ نہیں ہے۔ لیکن امریکہ کے پاس کچھ اور آپشن اور اختیارات بھی موجود ہیں ۔ ان کے مطابق مستقبل میں انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کیلئے بیسنگ آپشنز بہترین حل ہے۔ یہ اس بات کی طرف واضع اشارہ ہے کہ امریکہ اور نیٹو علاقے میں اپنے اڈوں سے جنگی کاروائیاں جاری رکھیں گے۔ لیکن کیا اس مقصد کیلئے امریکہ ایک بار پھر پاکستان سے جنگی اڈوں اور دیگر سہولتوں کی فراہمی کا مطالبہ کرے گا؟
افغان صدر کی طرف سے بیانات دراصل پاکستان پر دباؤ بڑھانے کی پالیسی کا حصہ ہیں ۔ اشرف غنی نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغانستان کے معاملات سے باہر رہیں۔ اور نیٹو افواج کے منظم انخلاء کو یقینی بنانے کیلئے اپنے دوست طالبان کو لگام ڈالیں۔
یاد رہے کہ امریکہ ، نیٹو اتحاد اور اشرف غنی پاکستان پر افغان طالبان کی مدد اور افغانستان حکومت کیخلاف جنگی کاروائیاں کرنے والے عسکریت پسندوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں ۔ جبکہ حقائق و واقعات ثابت کر رہے ہیں کہ افغان حکومت اور بھارت دراصل پاکستان کو نقصان پہنچانے کیلئے بلوچ باغیوں کی حمایت سے لیکر سرینا ہوٹل جیسی خون ریزی اور دیگر دہشت گرد کاروائیوں میں ملوث ہیں۔
امریکی تھنک ٹینک کے مطابق افغان حکومت اور افغان طالبان کے مابین مذاکرات کی کامیابی افغانستان میں امن کی پہلی شرط ہے۔ اس کیلئے سازگار ماحول پیدا کرنے کیلئے نوے دن تک عسکری کاروائیوں کو روکنا ہو گا۔ امریکی وزیر خارجہ مسٹر بلنکن نے بھی افغان صدر کو متنبہ کیا کہ امریکی فوجوں کے مکمل انخلا کے بعد افغان طالبان کابل کی طرف پیش قدمی کر سکتے ہیں۔
طالبان کے حوالے سے امریکہ ، نیٹو اور افغان حکومت کے تحفظات اور خدشات کی اصل وجوہات کچھ اور بھی ہیں ۔ ایک طرف امریکہ بھارت آسٹریلیا جاپان اور فرانس کے دفاعی اتحاد کے بعد چین اور طالبان میں عسکری روابط بتدریج بڑھ رہے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف ایران اب بھارت سے معاہدے ختم کر کے چین سے معاشی ، دفاعی اور سٹریٹجک ریلیشن بنا رہا ہے۔ اس صورت حال میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کیلئے بہر صورت طالبان کو کنٹرول کرنا لازم ٹھہرا ہے۔ مستقبل میں چین ، پاکستان اور طالبان کے باہمی تعلقات اور سٹریٹجک تال میل خطے میں طاقت کا توازن طے کرنے میں انتہائی اہم ہوں گے
ان تمام حالات و واقعات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ اور نیٹو اتحاد افغانستان سے انخلاء کے بعد بھی خطے میں کنٹرول کیلئے اپنے موجودہ فوجی اڈوں سے جنگی کاروائیاں جاری رکھیں گے۔ اور اس حوالے سے میرے مطابق امریکہ اپنی اتحادی افغان حکومت کو طالبان سے محفوظ رکھنے اور خطے میں اپنے جنگی مفادات کے تحفظ کیلئے پاکستان سے جنگی اڈوں کے فراہمی ، سٹریٹجک تعاون اور اسلحہ کی ترسیل کیلئے لاجسٹک سہولتوں کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ اور ایسی صورت حال میں پاکستان کو ایک بار پھر وار اگینسٹ ٹیرر کی طرح ایک طویل اور کڑے امتحان کا سامنا ہو سکتا ہے۔
ماڈرن ایج تاریخ گواہ ہے کہ ابن الوقت امریکہ کے دوستوں کے ساتھ ریلیشن ہمشہ ناقابلِ اعتبار رہے ہیں ۔ لہذا بین الاقوامی تعلقات اور معاہدوں کی حکمت عملی بناتے ہوئے ہمیں اپنی ملکی سلامتی اور قومی مفادات سب سے پہلے پیش نظر رکھنے ہوں گے
پاکستان زندہ باد – افواج پاکستان پائیندہ باد
( تحریر ۔ فاروق درویش )
پاکستان ایٹمی ہتھیارں کے بارے میرا یہ کالم بھی پڑھیں
بھارتی براس ٹیک سے ایٹمی میزائیل ، جے ایف 17 تھنڈر اور الخالد ٹینک تک
مغرب کی توہین اسلام کے بارے میرا یہ کالم بھی پڑھیں
مذہب اور چارلی ایبڈو برانڈ تہذیبوں کا ٹکراؤ ۔۔ تیسری عالمی جنگ ؟