بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے قوانین میں ایک اور جابرانہ تبدیلی کے تحت ، جموں وکشمیر سے باہر کے بھارتی شہریوں کیلئے کشمیر کی سرزمین پر زمین خریدنے کی اجازت دے دی ۔ بھارتی ادارے ایم ایچ اے نے مطلع کیا کہ جموں و کشمیر تنظیم نو کا تیسرا آرڈر ، 2020 – 26 اب کالعدم یا تبدیل کردیا گیا ہے۔ ایک گزٹ نوٹیفکیشن کے زریعے مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر ترقیاتی ایکٹ کے سیکشن 17 سے “ریاست کا مستقل رہائشی” کے فقرے کو خارج کردیا ہے جو مرکز کی سرزمین میں زمین کی خرید و فروخت سے متعلق ہے۔
یاد رہے کہ بھارتی ریاستی دہشت گردی اور فوج کے مظالم کے شکار مقبوضہ جموں و کشمیر کے آرٹیکل 370 کی متنازعہ تبدیلی سے پہلے کوئی غیر کشمیری بھارتی شہری کشمیر میں زمین خریدنے کا مجاز نہیں تھا ۔ تاہم تازہ ترین قانونی اور آینی تبدیلیوں نے غیر رہائشیوں کے لئے کشمیری یونین کے علاقے میں زمین خریدنے کی راہ ہموار کردی ہے۔
کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے صحافیوں کو بتایا کہ البتہ ان نئی ترامیم کے تحت زرعی اراضی غیر کاشتکاروں کو منتقل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ تاہم ، اس ایکٹ میں کئی چھوٹ ہیں جو غیر زرعی مقاصد کے لئے زرعی اراضی کی منتقلی کے قابل بنتی ہیں ، جن میں تعلیمی یا صحت کی سہولیات کا قیام بھی شامل ہے۔
[the_ad id=”2155″]
بھارتی ترجمان کے مطابق ایم ایچ اے کا نوٹیفکیشن فوری طور پر نافذ العمل ہوگا۔ ایم ایچ اے کے نوٹیفکیشن پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے بھارتی مسلمانوں کی سیاسی اور غیر سیاسی تنظیموں کی طرف سے شدید ردعمل کا اظہار کیا جا رہا ہے ۔ نیشنل کانفرنس کے رہنما عمر عبداللہ نے کہا کہ جموں و کشمیر کے زمینی ملکیت کے قوانین میں ناقابل قبول ترامیم کی گئیں ہیں۔ یہاں تک کہ غیر زرعی اراضی کی خریداری اور زرعی اراضی کی منتقلی کو آسان بنا دیا گیا ہے تو یہاں تک کہ ڈومیسائل کا ٹوکنزم ختم کردیا گیا ہے۔ جموں اور کشمیر میں اب غریب عوام اور چھوٹی چھوٹی زمین رکھنے والے مالکان کی زندگی اجیرن ہو جائے گی ۔
پاکستانی مبصرین اور عوامی حلقوں نے ان خدشات کا اظہار کیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت ختم کرنے کیلئے اب ہندوتوا کا سرمایہ دار طبقہ ، بھارت کے حلیف اور پاکستان مخالف ممالک ایجنٹس مقبوضہ جموں و کشمیر میں زمینوں اور جائیدادوں کی خریداری کریں گے۔ جن کے ذریعے کشمیر میں غیر ملکی ٹھکانوں کے بل بوتے بھارت اپنے مذموم مقاصد کیلئے کام کر سکے گا۔ عالمی سطح پر بھارت کی طرف سے کشمیر کے متنازعہ علاقے میں اس قانونی ترمیم کو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور عالمی معاہدوں
کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا جا رہا ہے