انڈیا کو فرانس سے رافیل طیارے ملنے کے بعد یہ بحث جاری ہے کہ کیا یہ جدید طیارے پاکستان کے تیار کردہ جے ایف 17 تھنڈر یا پاکستانی ایف 16 طیاروں سے بہتر ہیں یا نہیں۔ جبکہ عقلمند لوگ کہتے ہیں کہ کرکٹ بیٹ کی کوالٹی سے زیادہ اہمیت بیٹسمین کی کارکردگی اور طیارے سے زیادہ اہمیت طیارہ اڑانے والے کی مہارت کی ہوتی ہے۔
گذشتہ برس 27 فروری کو اپریشن سوئفٹ ریتارٹ میں پاکستانی ہواباز حسن صدیقی نے انڈین مِگ 21 طیارہ مار گرایا تو بھارتی پائل ونگ کمانڈر ابھینندن کو گرفتار کر لیا گیا۔ پھر وہ حراست میں پاکستانی قید میں ملنے والی چائے کا کپ تھامے اس چائے کی تعریف کرتے دکھائی دیے۔ ابھینندن کا یہ جملہ ” ٹی از فینٹیسٹک ” اب تک مشہور ہے۔ رواں برس فروری میں میڈیا کو بھارتی مِگ 21 کا ملبہ دکھائے جانے کے موقع پر پاک فضائیہ کے ایئرکموڈور سید عمر شاہ نے کہا تھا کہ اگر بھارت کے پاس رافیل بھی آ جائے تو بھی ہمارے ایف 16 اور جے ایف 17 تھنڈر مقابلے کیلئے ہمہ وقت تیار ہیں۔
۔
رافیل بھارتی فضائیہ کے میراج 2000 ہی کی جدید شکل ہے رافیل بنانے والی کمپنی کے مطابق اس کی حد رفتار 2020 کلو میٹر فی گھنٹہ ہے۔ بھارتی دفاعی تجزیہ کار معروف رضا کے مطابق رافیل کی خصوصیات کی وجہ سے اسے فورس ملٹی پلایئر کہا جا سکتا ہے۔ اس طیارے کی فلائنگ رینج عام لڑاکا طیاروں سے زیادہ ہے۔
جے ایف-17 تھنڈر کن صلاحیتوں کا حامل ہے؟
بھارتی رافیل کے مقابلے میں پاکستان کے جے ایف -17 تھنڈر لڑاکا طیارہ کی اہم خصوصیت اور واضع ایڈوانٹج یہ ہے کہ اسے پاکستان مکمل طور پر اپنے ہاں خود تیار کرتا اور خود ہی اوور ہالنگ اور اپ گریڈیشن کرتا ہے۔ پاکستان نے چین کی مدد سے ان طیاروں کو بنانے کی صلاحیت حاصل کی ہے اور عالمی دفاعی ماہرین کے مطابق یہ طیارہ ایک ہمہ جہت، کم وزن، فورتھ اینڈ ہاف جنریشن فائٹر ہے۔
۔
اس جے ایف 17 طیارے کی تیاری اور اوورہالنگ کی سہولتیں بھی پاکستان میں دستیاب ہیں۔ یعنی پاکستان اس طیارے کی تیاری یا اپ گریڈنگ کیلئے کسی ملک کا محتاج نہیں ۔ یہ طیارہ دنیا بھر کے بڑے ایئر شوز میں بھی پذیرائی حاصل کر چکا ہے اور عالمی ماہرین نے اس کی بہت اچھی اسسمینٹ کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر بین الاقوامی ایر شو سے جے ایف 17 کیلیے دعوت نامہ ضرور آتا ہے۔ جبکہ بھارت کا اپنے ملک میں تیار کردہ فائٹر طیارہ بری طرح فلاپ ہو کر دنیا بھر میں رد کر دیا گیا گیا۔
دفاعی ماہرین کے مطابق جے ایف 17 تھنڈر ایف-16 کی طرح ہلکے وزن کے ساتھ ساتھ تمام تر موسمی حالات میں زمین اور فضائی اہداف کو نشانہ بنانے والا ملٹی رول طیارہ ہے جو دور سے ہی ہدف کو نشانہ بنانے والے میزائل سے لیس ہے۔ جے ایف-17 تھنڈر نے اسی صلاحیت کی بدولت بی وی آر میزائل سے بالاکوٹ واقعے کے بعد انڈین فضائیہ کے مگ کو گرایا تو اس کے ساتھ ہی جے ایف-17 تھنڈر کو بھی خوب پذیرائی ملی۔
۔
جے ایف-17 تھنڈر طیاروں میں بھی رافیل طیارے کی طرح جدید ریڈار نصب ہے ۔ یہ طیارا ہدف کو لاک کر کے میزائل داغنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کی رینج 150 کلومیٹر تک بتائی جاتی ہے۔ جے ایف-17 تھنڈر زمین پر موجود دشمن کی نگرانی اور فضائی لڑائی کے ساتھ ساتھ زمینی حملے کی بھی بھرپور صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ یہ طیارہ فضا سے زمین، فضا سے فضا اور فضا سے سمندر میں حملہ کرنے والے میزائل سسٹم کے علاوہ دیگر جدید اور نیوکلیر ہتھیاروں کے استعمال کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔
پاک فضائیہ کے ایئر وائس مارشل ریٹائرڈ شہزاد چوہدری، پاکستان کے موقف کو دہراتے ہیں کہ جے ایف 17 وہ جدید طیارہ ہے جو ہم نے اپنی ملکی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے خود ڈیزائن کیا، خود بناتے اور خود اوور ہالنگ کرتے ہیں
رافیل اور جے ایف 17 کے درمیان موازنے پر شہزاد چوہدری کا کہنا ہے کہ ہر طیارہ اپنے مقاصد حاصل کرنے کیلیے ڈیزائن کیا جاتا ہے، اس کی رفتار، حجم یا کسی اور پہلو سے موازنہ کرنا درست نہیں ہے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ آپ کار اور ڈمپر کا موازنہ شروع کر دیں۔ جبکہ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ کس چیز کو کس مقصد کیلیے استعمال میں لایا جاتا ہے۔ جے ایف 17 کی خصوصیات اور تعداد سے متعلق شہزاد چوہدری نے کہا کہ وہ یہ تفصیلات تو کبھی نہیں بتائیں گے۔ ان کے مطابق ہمارے مقاصد کے اعتبار سے جے ایف 17 بہترین آپشن ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی طیارے تو اس وقت بھی اچھے تھے جب پاکستان نے بھارتی طیارہ مار گرایا تھا۔‘
شاہد لطیف کا دعویٰ ہے کہ دنیا جانتی ہے کہ بھارتی طیارے اڑتی پھرتی لاشیں ہیں۔ جس کی وجہ سے انھیں رافیل جیسی مہنگی ڈیل کرنا پڑی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ وہ سب کچھ تو جے ایف 17 میں بھی ہے جو رافیل میں ہے۔ ان کے مطابق اگر رافیل فورتھ جنریشن ہے تو جے ایف 17 میں فورتھ اینڈ ہاف جنریشن تک صلاحیت ہے
جے ایف 17 کہاں تیار کیے جا رہے ہیں؟
سابق ایئر مارشل ریٹائرڈ شاہد لطیف نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستان کے جے ایف 17 طیاروں کی خاص بات ہی یہ ہے کہ یہ بیرون ممالک نہیں بلکہ پاکستان کے اندر کامرہ میں تیار کیے جا رہے ہیں۔ ہم خود بناتے اور خود مرمت یا اوورہالنگ کرتے ہیں۔ جبکہ بھارت اپنے طہاریوں کی مرمت، اوور ہالنگ یا کسی پرابلم کی صورت میں فرانس کا محتاج رہے گا۔
پاکستان فضائیہ کے ایک ریٹائرڈ ایئر کموڈور قیصر طفیل کے مطابق دسمبر 2018 میں پاکستان نے 112 جے ایف طیارے تیار کر لیے تھے جبکہ مزید 76 پر کام جاری ہے۔ ان کے مطابق پاکستان ایک سال میں 24 جے ایف 17 طیارے بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
شاہد لطیف کا کہنا ہے کہ انڈیا کو رافیل ملنے میں ابھی کئی سال لگیں گے۔ اکبتہ اگر ان طیاروں میںکوئی خرابی واقع ہوئی تو پھر بھارت کو ہر بار فرانس کا رخ کرنا پڑے گا۔ ان کے مطابق طیارے سے زیادہ اہمیت اسسمینٹ کی ہوتی ہے۔ رافیل بھی ویسا فورتھ جنریشن طیارہ ہے جیسا پاکستان کی طرف سے گرایا جانے والا بھارتی ایس یو- 30 طیارہ تھا۔
عالمی دفاعی ماہرین کی طرف سے جے ایف-17 کی ڈیزائن لائف چار ہزار گھنٹے یعنی 25 سال بتائی جاتی ہے۔ جے ایف 17 طیارے میں نصب ریڈار نظام کی بدولت یہ بیک وقت 15 اہداف کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ چار اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔
ایف 16 طیاروں کے استعمال پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں
بھارتی اعتراضات اور واویلے پر پاکستان نے واضح کیا ہے کہ رافیل کے مقابلے کیلیے ایف 16 طیارے پر بھی کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ ایئرکموڈور سید عمر شاہ نے واضح کیا کہ ملکی سلامتی اور دفاع کیلئے پاک فضائیہ کو کسی کی بھی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ہمارے اپنے ہتھیار ہیں جن ک اپنے دفاع کیلیے استعمال کرنا ہمارا حق ہے۔
شہزاد چوہدری کے مطابق امریکہ نے پاکستان کو معاہدے کے تحت تمام طیارے دے دیے ہیں۔ تاہم انھوں نے طیاروں کی تعداد بتانے سے گریز کیا ہے۔ شاہد لطیف نے کہا کہ امریکہ اب دیگر ممکوں کو پاکستان سے تھنڈر طیارے خریدنے نہیں دے رہا اور معاہدوں میں رکاوٹیں ڈال رہا ہے۔ امریکہ بھی جانتا ہے کہ پاکستان نے ایف 16 کے مقابلے کا اپنا جے ایف 17 تیار کر لیا ہے۔ اس طیارے کی پاکستان مین مکمل تیاری کے بعد اب کوئی پاکستان کو بلیک میل نہیں کر سکتا۔
پاکستان قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے تو رفال سے متعلق بھارتی کے سابق کرکٹر گوتم گھمبیر کی ٹویٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ سادہ چائے 20 اور دودھ پتی 50 روپے فی کپ ہے۔‘
بات پھر وہیں پر ختم ہوتی ہے کہ کرکٹ بیٹ کے برانڈ سے زیادہ اہم بیٹسمین کی ٹکنیک اور طیارے سے زیادہ اہمیت طیارہ اڑانے والے ہواباز کی مہارت کی ہوتی ہے ۔ بھارت کے پاس رافیل اور سیخوئی تو ہیں لیکن پاکستان جیسے ایم ایم عالم کہاں سے آئیں گے؟ رافیل خریدے جا سکتے ہیں لیکن پاکستانی طیارے اڑانے والے حسن صدیقی جیسے ہواباز ۔۔۔ جی ہاں ” اے پتر ہٹاں تے نیی وکدے” ۔۔۔۔۔ پاکستان زندہ و پائیندہ باد
تحریر : فاروق رشید بٹ
واٹس ایپ کنٹیکٹ : 00923324061000
حوالہ و اقتباسات : بی بی سی اردو