محمد اسد کے نام سے عالمی شہرت حاصل کرنے والے دانش ور لیو پولڈ ویس پولینڈ کے شہر لووا کے ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ لیوپولڈ ویس کا شمار ان چند ایک یہودی صحافیوں میں ہوتا تھا جنہوں نے فلسطینی کاز کی کھلل کر حمایت کی۔ اور پھر وہ سعودی عرب کے بانی شاہ سعود کے قریبی دوست اور قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ کرنے والے مسلمان مترجم بن گئے ۔
پاکستان کے مشہور تاریخ دان ڈاکٹر اکرام چغتائی نے عرب نیوز کو بتایا کہ محمد اسد پاکستانی شہری کی حیثیت سے پاکستانی پاسپورٹ حاصل کرنے والے پہلے شخص تھے۔
محمد اسد کی زندگی کی تاریخ ساز سفر 1900 میں اس وقت پولینڈ میں شامل آسٹریائی علاقوں سے شروع ہو کر پہلے فلسطین، مکہ مکرمہ ، مدینہ منورہ اور متحدہ ہندوستان سے ہوتا ہوا 1992 میں موجودہ پاکستان سے محبت کا کفن لپیٹے سپین میں ختم ہو گیا۔ 1926ء میں اسلام قبول کرنے والے محمد اسد کی زندگی کا بیشتر حصہ مشرق وسطی، متحدہ ہندوستان اور پاکستان میں گزارا ۔
برصغیر پاک و ہند میں ان کی دلچسپی 1920 کی دہائی کے آخر میں سعودی عرب میں قیام کے دوران شروع ہوئی ، جہاں انہوں نے ہندوستانی وفود سے ملاقاتیں کیں اور پھر شاعر مشرق علامہ اقبال رحمۃ کے نظریہء پاکستان کی کشش کی بدولت انہوں نے اقبال کی قربت میں رہنے کیلئے ادھر کا رخ اختیار کیا۔
[the_ad id=”2155″]
جون 1932 میں وہ بحری جہاز کے ذریعے کراچی تشریف لائے اور وہاں سے لاہور چلے آئے ۔ جہاں انہوں نے شاعر مشرق حکیم الامت اور قیام پاکستان کے نظریاتی محرک علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ سے ملاقات کی۔
حضرت اقبال نے اسد کو ہندوستان میں مستقل قیام اور اس تحریک آزادی میں شامل ہونے پر قائل کیا جو 1947 میں ہندوستان کی تقسیم اور برطانوی حکومت سے آزادی کے بعد ایک نئی آزاد مملکت پاکستان کے قیام کا باعث بنی۔ حضرت اقبال نے انہیں پاکستان کی ریاست کے اسلامی بنیادوں پر آئینی اور نظریاتی مسودے کی تیاری میں مدد کیلئے راضی کر لیا۔
سنہ 1939 میں دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو محمد اسد کا آبائی ملک آسٹریا اتحادی طاقتوں کیخلاف نازی جرمنی کا اتحادی تھا۔ اس وقت تک محمد اسد آسٹریا کے پاسپورٹ ہولڈر تھے لہذا برطانوی حکام نے اپنے دشمن ملک کا شہری ہونے کی وجہ سے انہیں گرفتار کرلیا۔ اور یوں ان کے اگلے چھ سال آسٹریا اور جمرن قیدیوں کے ساتھ برطانیہ کے زیر تسلط ایشیائی علاقوں کے قید خانوں میں گزر گئے
دوسری جنگ عظیم کے دوران اپنی گرفتاری اور قید کے حوالے سے محمد اسد نے 1988ء میں اسپین میں اپنے آخری گھر میں اپنی اہلیہ کے ہمراہ انٹرویو لینے والے جرمن صحافی کارل گونٹر سائمن سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ، ” میں گرفتار ہونے والوں میں ایک اکلوتا مسلمان تھا ، لہذا برطانوی فوج میں شامل مسلمان فوجیوں نے مجھے فرار ہونے میں مدد فراہم کرنا چاہی تھی ، لیکن میں نے فرار ہونے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ .
بحرحال دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ کے بعد اسن کی رہائی ہوئی ۔ اور محمد اسد نے پاکستان کیلئے ایک مسلم ریاست کا ڈھانچہ تشکیل دینے کیلئے خود کو وقف کردیا ۔ اور مسلم لیگ کی قیادت نے انہیں سعودی عرب بھیجے جانے والے سفارتی مشن میں شامل کر لیا گیا۔
[the_ad id=”2155″]
تاریخی مبصر چغتائی کہتے ہیں کہ ۔ اس سفارتی مشن کی تشکیل کے وقت ، پاکستان میں کوئی سفارت خانہ نہیں تھا۔ لہذا مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں پاکستان کے اس سفارتی مشن پاکستانی حاجیوں سے متعلق تمام معاملات کی نگرانی کی تھی۔ پاکستان 1947 میں نئی تشکیل شدہ ریاست کی نمائندگی کیلئے سرکاری دورے پر محمد اسد کو سعودی عرب بھیجنا چاہتا تھا۔ لیکن ان دنوں ابھی پاکستان میں پاسپورٹ کے حوالے سے کوئی قوانین موجود نہیں تھے۔ لہذا محمد اسد کے پاس سعودی عرب کے دورے کیلئے درکار پاسپورٹ اور دیگر سفری دستاویزات نہیں تھیں۔
محمد اسد نے اس وقت کے وزیر اعظم خان لیاقت علی خان سے ملاقات میں پاکستانی شہریت کی درخواست کی اور لیاقت علی خان کی خصوصی ہدایت پر انہیں پاکستانی حکومت کی طرف سے جاری کیا گیا پہلا پاسپورٹ دے دیا گیا۔ اور پھر ملت اسلامیہ کا یہ عظیم سپوت 1992 میں سپین میں اپنے انتقال تک پاکستانی پاسپورٹ ہولڈر رہا ۔
محمد اسد کی سعودی عرب سے زندگی بھر کی والہانہ محبت اور سعودی شاہی خاندان سے رفاقت کا آغاز 1927 میں ان کے پہلے حج کے دوران مکہ مکرمہ میں سعودی حکمران شاہ عبدالعزیز ابن سعود سے ملاقات اور دوستی سے ہوا ۔
محمد اسد نے اسلامک انفارمیشن سروس کو اپنی زندگی کا آخری ٹیلی ویژن انٹرویو کے دوران بتایا کہ کہ شاہ عبد العزیز نے مجھے شاہی حلقہ احباب میں رہنے کی دعوت دی اور میں بغیر کسی مداخلت کے چھ سال ان کے قریبی حلقے میں رہا۔ محمد اسد کا کہنا تھا سعودی شاہ کے ساتھ قربت ان کی زندگی کا ایک حیرت انگیز تجربہ اور ایک حیرت انگیز دور تھا۔ میرے جاننے والے لوگوں میں شاہ عبدالعزیز ایک انتہائی قابل ذکر شخصیت کے حامل تھے۔
محمد اسد ایک طویل عرصہ تک سعودی شاہی خاندان سے قریب رہے اور ان کے معزز سعودی شاہی خاندان سے ذاتی تعلقات سعودی عرب اور پاکستان کے باہمی تعلقات مضبوط بنانے میں ہمیشہ مدد گار ثابت ہوئے ۔
تاریخ دان چغتائی کے مطابق محمد اسد مرتے دم تک پاکستان اور سعودی عرب میں دوستانہ تعلقات کے قیام میں پیش پیش رہے ۔ وہ سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل کے بھی بیحد قریب تھے اور ان کے شاہ عبد العزیز کے صاحبزادے شاہ فیصل مرحوم سے بھی گہرے مراسم تھے ۔
محمد اسد کا سب سے اہم کارنامہ ان کا قرآن حکیم کا انگریزی زبان میں ترجمہ ہے ۔ قرآن کے ترجمہ پر انہوں نے شاہ فیصل مرحوم کی ہدایات پر 1960 کی دہائی میں کام کرنا شروع کیا۔ اور 1980 میں ” قرآن کا پیغام” کے عنوان سے قرآن پاک کا جو مکمل ترجمہ اور تفسیر شائع ہوئی ، وہ قرآن پاک کے مشہور ترین انگریزی تراجم میں سے ایک ہے۔
اسلام ، پاکستان اور مسلم دنیا کے ساتھ ان کی محبت ایک عشق کی انتہا تھی اور ان کا اسلام سے یہ ابدی رشتہ حجاز و فلسطین سے شروع ہوا تھا۔
[the_ad id=”2155″]
سنہ 2008 میں جارج میش کی ہدایت کاری میں ان کی زندگی پر ایک دستاویزی فلم ” ڈیر ویگ ناچ مکہ ” بنائی گئی تو پاکستان میں یوم آزادی کی تقریبات کی نمائش کے دوران محمد اسد کی زندگی کے بارے اس ڈاکومنٹری فلم کا ایک پوسٹر بھی آویزاں کیا گیا تھا۔
محمد اسد کو ان کے ماموں جو ایک ماہر نفسیات نے 1922 میں یروشلم کا دورہ کرنے کیلئے مدعو کیا تو انہوں نے وہیں عربی زبان سیکھی۔ اور وہ فرینکفرٹر زیتونگ کے مشرق وسطی کے نمائندہ بن گے۔ اس پلیٹ فارم پر انہوں نے صیہونیت ، برطانوی حکمرانی اور قوم پرستی کیخلاف لکھا۔
اسد نے آئی آئی ایس کو دیے گئے ایک انٹرویو میں برملا کہا تھا کہ ، “میں صیہونیت کے نظریے سے اس سے رابطے کے پہلے ہی لمحے سے مخالف تھا۔ میں نے پہلے لمحے ہی یہ محسوس کیا تھا کہ فلسطین پر یہودی نوآبادیات کا مقصد ، عربوں کے ساتھ ظلم کرنا تھا جو انتہائی غیر اخلاقی تھا”۔
محمد اسد نے سنہ 1926ء میں برلن جرمنی میں متحدہ ہندوستان سے تعلق رکھنے والے مسلم کمیونٹی کے سربراہ امام عبدالجبار خیری کی موجودگی میں اسلام قبول کیا۔ اور امام خیری نے انہیں اپنا نام ” محمد اسد” رکھنے کا مشورہ دیا۔
اسد نے آئی آئی ایس کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں امام خیری کے الفاظ دہراتے ہوئے کہا ، “اس نے کہا‘ انتظار کرو ، آپ کا نام لیوپولڈ ہے ، لیو کے معنی شیر ہیں اور اس کا عربی ترجمہ اسد ہے۔ آپ کا نام محمد اسد ہونا چاہئے اور اسی دن سے میں محمد اسد بن گیا “۔۔۔ یہ ایک خوبصورت فٹ اور با کمال جوڑ تھا، اسد کی پیدائش کے شہر کا نام لیوو ، لفظ “لیو” سے ماخوذ ہے جس کے معنی بھی شیر ہے۔ بے شک محمد اسد ملت اسلامیہ کا ایک شیر تھا ، شیر جیسی ہی زندگی گزار گیا۔