Armed Forces Jobs & Defence News

Pakistan Armed Forces Jobs & Defence News

بھارتی براس ٹیک سے ایٹمی میزائیل ، جے ایف 17 تھنڈر اور الخالد ٹینک تک

اور پھر 1998ء میں ایٹمی دھماکوں کے بعد سب کچھ ہی بدل چکا ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں کیلئے پاک فضائیہ کے شاہین، غوری ، حتف ، رعد اور بابر جیسے تباہ کن میزائل قطار در قطار ہمہ وقت تیار اور فوج ہوشیار ہے

کسی ملک کی عسکری طاقت اور ایٹمی سٹیٹس اس کے فوجی کمانڈ اینڈ کنٹرول ، معاشی نظام کی کامیابی، ایٹمی ہتھیاروں کی خصوصیات اور انہیں چلانے کی صلاحیتوں سے مل کر وضع ہوتے ہیں۔ کسی ملک کا ایٹمی نظریہ اس کی ایٹمی قوت کے بارے ریاست کا اعلانیہ موقف ہوتا ہے۔ البتہ جوہری سٹیٹس کئی طرح کے ہو سکتے ہیں ۔ جیسے کہ کوئی ریاست ایٹمی تجربہ کے بعد ایٹمی ہتھیار بنا چکی ہو یا خفیہ طور پر ایٹمی ہتھیار بنا چکی ہو لیکن اس کا اعلان نہ کیا ہو یا پھر ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کیلئے خفیہ کام کر رہی ہو۔
 
عالمی دفاعی مبصر وپین نارنگ نے ریاست کے غیراعلانیہ یا خفیہ ایٹمی صلاحیت کیلئے ” کیٹالیٹک ” کی اصطلاح مرتب کی ہے۔ گویا 74ء سے 98ء تک پاکستان کا ایٹمی سٹیٹس ” کیٹالیٹک” ہی تھا ۔ مغربی ممالک اور پاکستان کی اتحادی سپر پاور کو ہمیشہ یہ شکوک رہے کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام جنگی بنیادوں پر چل رہا ہے۔ جبکہ پاکستان اپنی سلامتی کو درپیش بھارتی خطرات کے باعث خاموشی سے اپنی منزل کی طرف گامزان رہا۔
 
سنہ 71ء کی جنگ کے بعد پاکستان کی اسٹریٹجک پلاننگ میں نمایاں تبدیلی آئی۔ سقوط مشرقی پاکستان کے وقت بین الاقوامی برادری کی بے وفا خاموشی نے پاکستانی گورننگ اپریٹس کو یہ شدید احساس دلایا کہ اب عالمی طاقتوں کے سیکیورٹی وعدوں پر انحصار کرنا خود کشی ہو گا۔ ملکی سلامتی کیلئے ہر حال میں ایٹمی صلاحیت حاصل کرنا ہی تحفظ کی واحد ضمانت ہو گی۔ 74 ء میں بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعد بھارتی عزائم کھل کر بینقاب ہو گئے۔ اورجنرل ضیا الحق کے دور میں پاکستان ایٹمی صلاحیت کے حصول کیلئے مزید متحرک ہو گیا۔
 
جوہری ہتھیاروں کیلئے پاکستان نے ڈبل پلیٹ فارم حکمت عملی اختیار کی۔ ایک وہ پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن قائم کیا جس نے پلوٹونیم ری پروسیسنگ پر کام شروع رکھا اور دوسرا کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز کا ادارہ جس نے ان ہتھیاروں کی پیداوار کیلئے یورینیم کی افزودگی کا شعبہ سنبھالا ۔ اس کامیاب پلاننگ نے پاکستان کو بیک وقت ایٹمی ہتھیاروں اور ان کیلے میزائیلوں کی تیاری کی طرف برق رفتار اور پرعزم سفر کو رکنے نہیں دیا۔
 
سنہ 86 میں بھارت ملٹی فیز براس ٹیک فوجی مشقوں کی اڑ میں راجستھان اور پنجاب کی سرحدوں پر نو ڈویژن فوج کے ساتھ متحرک ہوا۔ اس دور میں خالصتان تحریک اپنے عروج پر تھی۔ اور بھارت سرحدوں پر دباؤ سے پاکستان کو سکھوں کی حمایت سے روکنا چاہتا تھا ۔ بھارتی فوج 26 بکتر بند رجمنٹ تیار کر چکی تھی اور پاکستان کے مقابلے میں اس کا عددی تناسب 2 : 1 کا تھا۔ بھارت کا اہم ہتھیار روسی ٹی 75 ایم ٹینک تھا جو پاکستانی ٹینکوں سے کہیں طاقتور تھا۔
 
گو کہ پاک فوج کے پاس امریکی ٹینک شکن ہتھیار اور ہیوی فائر پاور تھی لیکن مغربی محاذ پر روس کیخلاف جاری جنگ کی وجہ سے بیک وقت مشرقی محاذ پر بھارت سے جنگ پاکستان کیخلاف جاتی تھی۔ پاکستان فضائیہ کے پاس اس وقت کے جدید ترین جنگی طیارے ایف 16 تھے۔ لیکن بھارت نے ان کیلئے فرانس سے میراج – 2000 ایچ اور روس سے مگ 29 – فلکرم حاصل کر لیے تھے۔

براس ٹیک فوجی مشقوں کے دوران بھارتی آرمی چیف جنرل کے سندرجی حکومتی احکام سے بھی اگے بڑھ رہے تھے۔ جو ان مشقوں کے خفیہ مقاصد کے بارے شکوک و ابہام اور بڑھا رہے تھے۔ بعد میں بھارتی مغربی کمانڈ کے سربراہ جنرل پی این این نے بھی یہ اعتراف کیا تھا براس ٹیک فوجی مشقیں دراصل پاکستان کے ساتھ چوتھی جنگ شروع کرنے کا منصوبہ تھا۔

ایک طرف روس اس کیخلاف لڑنے والے پاکستان کو بھارت کے ہاتھوں زچ کروانے کیلئے اور دوسری طرف امریکہ اپنے اتحادی پاکستان کو بچانے کیلئے سرگرم تھا۔ پاکستان کیلئے دستیاب اختیارات انتہائی محدود اور پیچیدہ تھے۔ ایک طرف جنرل ضیاء الحق کو امریکہ سے ان وعدوں کی پاسداری کرنا تھی کہ پاکستان ایٹمی ہتھیار نہیں بنائے گا۔ جبکہ دوسری طرف بھارتی جارحیت روکنے کیلئے ایٹمی ہتھیار ” ناؤ آر نیور” کی حد تک ضروری تھے۔
 
اگرچہ مارچ 84ء میں پاکستان اںامک انرجی کمیشن اور کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز نے ایٹمی ہتھیاروں کا ابتدائی تجربہ کر لیا تھا۔ لیکن ایٹمی ہتھیار فائر کرنے کیلئے کوئی ڈیلیوری سسٹم یعنی میزائیل یا طیارے نہیں تھے۔ یہ ایٹمی ہتھیار پاک فضائیہ کے سی – 130 کے ذریعے گرائے جا سکتے تھے لیکن یہ طیارہ بھارتی طیاروں اور ایئر ڈیفنس سسٹم کا آسان نشانہ بن سکتا تھا۔
 
براس ٹیک بحران کے عروج کے اس نازک وقت پاکستان کے غیر اعلانیہ ایٹمی ہتھیاروں کی بلاسٹنگ صلاحیت بھی غیر یقینی تھی۔ اس صورت حال میں پاکستانی قیادت کو یہ بھی سخت تشویش تھی کہ بھارت براس ٹیک مشقوں کی آڑ میں جنگ شروع کرنے کی عیاری کر سکتا تھا ۔ دفاعی تھنک ٹینک کو خدشات تھے کہ بھارت کی طرف سے پاکستان کے کہوٹہ ایٹمی پلانٹ پر اسرائیل کے عراقی ایٹمی پلانٹ پر حملے کی طرح کا کوئی تباہ کن اٹیک بھی ہو سکتا ہے۔
۔
Brasstacks crisis January 1986
براس ٹیک جنگی مشقوں کی آڑ میں جنوری 1986 کے شروع میں بھارتی فوج صرف راجھستان تک محدود تھی اور پھر 23 جنوری تک بھارتی فوجوں کا راجھستان سے آزاد کشمیر سرحد تک پھیل جانا بھارت کے جارحانہ خفیہ عزائم کی نشان دہی کرتا تھا
دنیا کی جنگی تاریخ گواہ ہے کہ ریاستی مفادات کیلئے گزرے ہوئے کل کے حریف آنے والے کل میں حلیف بھی بن سکتے ہیں۔ چونکہ اس وقت امریکہ کو روس کیخلاف پاکستانی افواج کی اشد ضرورت تھی لہذا براس ٹیک بحران میں پاکستان کی کمزور پوزیشن نے امریکہ کو اس بحران کے خاتمے کیلئے ہر انتہائی مداخلت پر مجبور کردیا۔ امریکہ نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے بین الاقوامی تحفظات کے باوجود اسے بھارتی خطرات سے محفوظ رکھنے کی حکمت عملی اپنائے رکھی ۔
 
بہر حال امریکی سفارتی کوششوں اور جنرل ضیاء الحق کی کرکٹ ڈپلومیسی کے مشترکہ اثرات سے بالآخر وہ بحران ختم ہوا جو جنوری 87 ء میں اپنے عروج پر تھا۔ امریکی سفیر جان ڈین کو یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ وہ سرحد کے دونوں اطراف سے فوجوں کو منظم طریقے سے ہٹانے کیلئے ناظم کی حیثیت سے کام کریں۔
 
براس ٹیک بحران دراصل پاکستان کے اسٹریٹجک فریم ورک کا پہلا پہلا ہاٹ ٹیسٹ اور ایک سبق آموز تجربہ تھا۔ اس آزمائش میں پاکستانی قیادت اور دفاعی تھنک ٹینک کی طرف سے ایٹمی پروگرام بچانے کیلئے ڈپلومیسی، اسے تکمیل تک پہنچانے کی محفوظ حکمت عملی اور سفارتی منصوبہ بندی کا امتزاج بڑا باکمال تھا ۔ اس بحران نے ہمیں سکھا دیا کہ ملکی سلامتی کیلئے خطرات میں ایٹمی قوت ہونے کے کیا معانی ہیں۔ اور ریاستی مفادات کیلئے اتحادیوں سے لابنگ یا سفارتی منصوبہ بندیاں کیا اہمیت رکھتی ہیں۔

براس ٹیک جنگی مشقوں کے بحران نے ایک دشمن ملک کی ایٹمی قابلیت کے مقابلے میں ایک نوزائیدہ و نامکمل ایٹمی صلاحیت کے حامل ملک کی سلامتی کیلئے سنگین خطرات کے تصور اور روایتی دفاعی ٹیکنالوجی کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا۔

براس ٹیک بحران سے سیکھے گیے سبق کا نتیجہ دنیا کے سامنے 1990ء میں کشمیر کرائسس کے دوران اس وقت سامنے آیا جب پاکستان نے ایک غیر اعلانیہ مگر مکمل صلاحیت والی ایٹمی قوت اور نیوکلیئر پے لوڈ ایبل ایکٹو میزائیل دستیاب ہونے کی وجہ سے بھارتی عزائم کو کامیابی سے روک دیا۔ حالانکہ براس ٹیک بحران میں اپنے نظریہ ضرورت کے تحت پاکستان کو بچانے کیلئے بھرپور مداخلت کرنے والا امریکہ بھی اس دوران پریسلر ترمیم ایشو تنازعہ کے باعث پاکستان کی حمایت میں کسی بھی مداخلت سے گریزاں تھا۔
اور پھر 1998ء میں اعلانیہ ایٹمی دھماکوں کے بعد سب کچھ ہی بدل چکا ہے۔ پاکستانی ایٹمی ہتھیار داغنے کیلئے پاک فضائیہ کے شاہین ، غوری ، غزنوی ، شاہین ، حتف ، رعد اور بابر جیسے تباہ کن میزائل قطار در قطار ہمہ وقت تیار اور فوج ہوشیار ہے۔ امریکہ سے ایف 16 طیاروں اور دیگر ہتھیاروں کی معاہدوں کے مطابق بروقت ڈیلیوری نہ ہونے کی بلیک میلنگ کے سبق کا نتیجہ پاکستان کی طیارہ سازی اور جدید ہتھیاروں کی پیداوار میں خود کفالت کی سنہری منزل کی جانب کامیاب سفر کی روشن نشانیاں پاکستانی جے ایف – 17 تھنڈر اور الخالد ٹینک ہیں۔
 
براس ٹیک کے اعصاب شکن بحران سے ملنے والا سبق اور پاکستانی قیادت کی امریکہ سے ایٹمی پروگرام کے بارے کامیاب ڈپلومیسی ہمارے ایٹمی پروگرام کی کامیابی کی اہم وجوہات ہیں۔ لیکن یاد رکھنا ہو گا کہ نظریہ ضرورت کے تحت اتحادی بدلنے کے ماہر امریکہ کو اس وقت افغان جنگ میں اگر پاکستان کی خدمات کی ضرورت نہ ہوتی تو شاید پاکستان کا ایٹمی پروگرام کامیابی کی منزل تک بہت دیر بعد پہنچ پاتا۔
 
دیکھا جائے تو روس کیخلاف افغان جنگ میں ہماری امریکہ کے اتحادی کی حیثیت سے بے پناہ قربانیاں مابعد بڑے خوش بخت نتائج لائیں ۔ میرے مطابق آج پاکستان کے ایٹمی طاقت ہونے کی بنیادوں میں افغان وار اور وار اگینسٹ ٹیرر میں پاکستانی فوج اورعوام کی 60 ہزار شہادتوں کا مقدس لہو بھی شامل ہے

تحریر : فاروق رشید بٹ

حوالہ مضمون : پاکستان ڈیفنس


پاکستانی ایٹمی پروگرام کیخلاف بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ کے بارے میرا یہ مضمون بھی پڑھیں

پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کیخلاف بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ کے مذموم عزائم اور حقائق

Farooq Rashid Butt
Farooq Rashid Butthttp://thefoji.com
Editor in Chief of Defence Times and Voice of Pakistan, a defence analyst, patriotic blogger, poet and web designer. The passionate flag holder of world peace

DEFENCE ARTICLES

عالمی مبصرین اور چینی ماہرین کے مطابق پاکستان کا چین سے ٹون انجن سنگل سیٹ ففتھ جنریشن...
پاکستان ائر فورس نے جے ایف 17 تھنڈر فائٹر طیاروں کے جدید ترین ورژن بلاک 3 کا...
پاکستان ائر فورس کے ترجمان کے مطابق پاکستان نے دنیا کے جدید ترین ہائپر سونک میزائل سمیت...
پاکستان ائر فورس میں شامل ہونے والا نیا ملٹی رول فائٹر جیٹ ، پاکستان کے دوست اور ...

1 Comment

Leave a Reply

DEFENCE NEWS

Writers International

Our website of news articles & current affairs

DEFENCE BLOG

1 Comment

Leave a Reply